بیٹیاں جنم ہی کیوں لیتی ہیں؟
سات بہنیں ہیں ۔ سب سے چھوٹی ساتویں جماعت میں ہے‘ وہ بھی دو تین سال میں ہمارے برابر ہو جائے گی۔ میرے والدین بہت ظالم ہیں‘ مار پیٹ اور گالم گلوچ تو عام بات ہے‘ کھانے پینے تک کو نہیں دیتے۔ میٹرک تک دو بہنوں نے پڑھا ہے لیکن میں نے امتحان نہیں دیا کیونکہ ہمیں باہر جانے کی اجازت نہیں۔ گھر سے باہر جھانک بھی نہیں سکتے کہ پھر ہمارے کردار پر انگلی اٹھتی ہے۔ میں نے پہلے بھی آپ کو خط لکھا تھا ‘ آپ سوچ نہیں سکتے کہ کتنی مشکل سے خوشامد کر کے اسے بھجوایا تھا۔ یہ میرا آخری خط ہے‘ پھر میں آپ کو خط نہیں لکھوں گی۔ آپ مجھے صرف اتنا بتا دیجئے کہ بیٹیاں جنم کیوں لیتی ہیں‘ ان کا جرم کیا ہے اور وہ پیدا ہوتے ہی مر کیوں نہیں جاتیں؟ آپ مجھے نصیحت نہ کیجئے گا بس میرے سوال کا جواب دیجئے‘ اماں اپنی دنیا میں مگن ہیں ‘ انہیں ہماری کوئی فکر نہیں‘ پھٹے پرانے کپڑے پہننے کو ملتے ہیں‘ عید بقر عید پر بھی نئے کپڑے نصیب نہیں ہوتے۔ کہتی ہیں کہ یہ بن سج کر دوسروں کو رجھائیں گی‘ ہمارے سارے رشتے دار پنجاب میں ہیں۔ محلے میں کہیں آنا جانا نہیں۔ ابا کی آمدنی ٹھیک ٹھاک ہے۔ مگر نجانے وہ کیوں ہمارے ساتھ ایسا برا سلوک کرتے ہیں۔ ماں بھی اپنی نہیں لگتیں‘ انہیں ہم سے بالکل لگاﺅ نہیں۔ چھ بہنیں جوان ہیں مگر انہیں رشتے تلاش کرنے کی کوئی جلدی نہیں‘ کہتی ہیں کہ پنجاب جا کر لڑکیوں کی شادی کریں گی‘ لیکن پنجاب کب جائیں گے؟ اس کا کچھ علم نہیں۔ ہم دن بھر کام کاج کرتی اور شلواریں اور پاجامے سیتی ہیں۔ کسی دکاندار سے اماں کپڑے لے آتی ہیں‘ مشین پر باری باری بیٹھ کر ہم بہنیں سلائی کرتی اور روکھی سوکھی کھا کر خدا کا شکر ادا کر لیتی ہیں۔ آپ کے جواب کی منتظر۔ (ایک بد نصیب بیٹی)
مشورہ: آپ کا پہلا خط مجھے نہیں ملا‘ آپ نے اپنا سارا حال لکھا ہے اور مجھے لگتا ہے کہ اب آپ کے دل کا بوجھ ہلکا ہو گیا ہو گا۔ گھر میں صرف بیٹیاں ہوں تو ماں کا دل ویسے ہی ہولنے لگتا ہے۔ یہ بات بہت اچھی ہے کہ آپ بہنوں نے میٹرک تک جیسے تیسے تعلیم حاصل کر لی ۔ بقول آپ کے سلائی کٹائی بھی آتی ہے۔ اسی لئے آپ کی اماں سلائی میں لگائے رکھتی ہیں ہو سکتا ہے انہوں نے آپ کی شادی کےلئے کوئی کمیٹی ڈالی ہو۔ مہنگائی کے دور میں اگر آپ بہنیں گھر میں کام کر لیتی ہیں تو کوئی حرج نہیں۔ کراچی میں تو لڑکیاں گھر میں بہتیرے کام کر لیتی ہیں۔ محنت کرنے میں کوئی عار نہیں۔ اس سے وقت گزرتا ہے اور آمدنی میں بھی خاطر خواہ اضافہ ہوتا ہے۔
اب رہا یہ سوال کہ بیٹیوں کا جرم کیا ہے؟ پچھلے دنوں مجھے ایک صاحب نے ایسے بوڑھے آدمی کی داستان سنائی جو ذیابیطس کے مریض ہیں‘ اتنے لاغر و نحیف کہ کھانے پینے کا کچھ ہوش نہیں‘ ان کی بھی کئی بیٹیاں تھیں‘ ایک کے سوا سب کی شادیاں ہو گئیں‘ اس لڑکی کی عمر ڈھل چکی مگر وہ اپنے باپ کے ناروا سلوک کے باوجود اسے چھوڑ کر جانے کو تیار نہیں‘ تنگ و تاریک کوٹھڑی میں جھلنگا سی چارپائی ہے‘ اس کے برابر پھٹا پرانا گدا ڈال کر بیٹی لیٹ جاتی ہے‘ باہر کونے میں چولہا ہے کچھ مل گیا تو پکا لیا ورنہ صبر شکر۔ان صاحب کو بھی بیٹیوں سے لگاﺅ نہیں تھا مگر اب وہ اپنی بیٹی کو دعائیں دیتے ہیں جو بڑھاپے ‘ بیماری اور ناداری میں ان کا ساتھ دے رہی ہے۔ وہ اپنے عمل پر پچھتاتا ہے کہ اس نے بیٹیوں کے ساتھ ایسا ناروا سلوک کیوں کیا اور ان کی قدر کیوں نہ کی۔ ہمارے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے ”جس مسلمان کے ہاں دو بیٹیاں ہوں اور وہ انہیں اچھی طرح رکھے وہ اسے جنت میں لے جائیں گی“( بخاری)۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ فرماتی ہیں ”ایک روز ایک عورت میرے پاس آئی ‘ دو بچیاں ساتھ تھیں‘ اس نے کچھ مانگا‘ میرے پاس صرف ایک کھجور تھی وہ میں نے اس عورت کے ہاتھ پر رکھ دی‘ اس نے کھجور کے دو ٹکرے کئے اور آدھی آدھی دونوں میں بانٹ دی ‘ خود نہ کھائی‘ اس کے بعد چلی گئی۔ جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے‘ تو میں نے انہیں یہ ماجرا سنایا۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر فرمایا ” جو شخص بھی لڑکیوں کی پیدائش کے ذریعہ آزمایا گیا اور ان کے ساتھ اچھا سلوک کر کے آزمائشوں میں کامیاب رہا تو یہ بچیاں قیامت کے روز اس کےلئے جہنم کی آگ سے بچنے کےلئے دیوار ثابت ہوں گی“ (بخاری ‘ مسلم)
اسی طرح مسلم میں ہے ‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”جس نے دو لڑکیوں کی پرورش کی یہاں تک کہ وہ بالغ ہو گئیں تو قیامت کے دن میں اور وہ اس طرح کھڑے ہوں گے “۔ یہ فرما کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی انگلیوں کو جوڑ دیا۔ بیٹیاں تو رحمتوں کا خزانہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ اپنے خزانے میں سے جسے چاہے یہ دولت عطا کرتا ہے۔ بیٹیاں اسی لئے ہوتی ہیں کہ ان پر شفقت اور محبت کی نظر کی جائے۔ ان کا کوئی جرم نہیں ہوتا بلکہ وہ اپنے ساتھ رزق لے کر آتی ہیں۔ میں آپ کو نصیحت نہیں کرتی بس اتنا کہو گی کہ ماں باپ کے بہت حقوق ہیں۔ انہوں نے آپ کو تحفظ دے رکھا ہے۔ رہی پابندیاں ‘ تو کسی بھی معاشرے میں رہنے کےلئے ان پر عمل کرنا پڑتا ہے۔ آپ ساری بہنیں نماز کی پابندی کریں‘ قرآن پاک کی تلاوت ترتیب سے کیجئے۔ آپ کے مسائل وقت کے ساتھ ساتھ حل ہو جائیں گے‘ شادی بیاہ کا ایک وقت مقرر ہے وہ بھی ہو جائے گی‘ ہو سکتا ہے کہ آپ کے والدین نے رشتے طے کر رکھے ہوں۔ اس معاملے میں پریشان نہ ہوئیے۔
بچہ بھوکا رہتا ہے
پروین خان سرگودھا سے لکھتی ہیں‘ میرا بچہ چھ ماہ کاہے۔ کئی دن سے محسوس کر رہی ہوں کہ اس کا پیٹ نہیں بھرتا لیکن میں اسے اوپری دودھ نہیں لگانا چاہتی۔ مجھے کوئی ایسا ٹوٹکہ بتائیے جس سے میرا دودھ بڑھ جائے اور وہ بھوکا نہ رہے۔ ڈاکٹر بھی یہی کہتے ہی کہ بچے کو ماں اپنا دودھ پلائے۔
مشورہ: پروین بی بی ! آپ کی بات صحیح ہے کہ ماﺅں کو اپنا ہی دودھ بچوں کو پلانا چاہیے مگر جب بچے کا پیٹ نہ بھرے تو اس صورت میں اوپر کا دودھ بھی ڈاکٹر سے پوچھ کر دیا جا سکتا ہے۔ ماشاءاللہ آپ کا بچہ چھ ماہ کا ہے۔ مونگ کی دال اور چاول ملا کر پتلی کھچڑی دیں۔ پسے ہوئے چاول ایک چمچہ لے کر اس کی کھیر بنا کر بچے کو دیجئے۔ بچے کا پیٹ بھی بھرے گا اور نشوونما بھی ہو گی۔ سوجی کا پتلا حلوہ بھی آپ کھلا سکتی ہیں۔ ابلا ہوا آلو بھی دے سکتی ہیں۔ آپ خود بکری کا پھیپھڑا منگوا کر اس کے ٹکڑے کیجئے۔ کڑاہی میں تھوڑے سے تیل یا گھی میں انہیں ڈال کر ہلکی آنچ پر ڈھانپ کر پکائیے اور پھر نمک اور کالی مرچ چھڑک کر کھائیے۔ آپ پھیپھڑے کو کلیجی کی طرح پکا کر بھی کھا سکتی ہیں۔ روزانہ پیٹ بھر کر پھیپھڑے کھائیے ہفتہ عشرہ میں چھاتیوں میں خوب دودھ اترنے لگے گا۔ مٹر کھانے سے بھی دودھ خوب اترتا ہے۔ بچے کو دودھ پلانے سے پہلے آپ خود ایک گلاس دودھ پی لیں‘ یہ عمل بھی بہت مفید ہے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں